Showing posts with label islamic poetry in urdu english. Show all posts
Showing posts with label islamic poetry in urdu english. Show all posts

Wafa Ki Jung Matt Larna Bohat Be-Kaar Jati Hai

Wafa Ki Jung Matt Larna Bohat Be-Kaar Jati Hai

Zamaana Jeet Jata Hai Mohabbat Haar jati Hai

Hamara Tazkara Choro Hum Aise Log Hain Jin Ko

Mott Kuch Nahi Kehti Tanhai Maar Jati Hai...

Continue Reading...

Persecution of a king and his subjects had very little treasure.

ایک بادشاہ نے اپنی رعایا پر ظلم و ستم کرکے بہت ساخزانہ جمع کیا تھا ۔ اور شہر سے باہر جنگل بیابان میں ایک خفیہ غار میں چھپا دیا تھا اس خزانہ کی دو چابیاں تھیں ایک بادشاہ کے پاس دوسری اس کے معتمد وزیر کے پاس ان دو کے علاوہ کسی کو اس خفیہ خزانہ کا پتہ نہیں تھا ۔ ایک دن صبح کو بادشاہ اکیلا سیر کو نکلا ۔ اور اپنے خزانہ کو دیکھنے کے لئے دروازہ کھول کر اس میں داخل ہوگیا ۔ خزانے کے کمروں میں سونے چاندی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔ ہیرے جواہرات الماریوں میں سجے ہوئے تھے ۔ دنیا کے نوادرات کونے کونے میں بکھرے ہوئے تھے ۔ وہ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ اسی دوران وزیر کا اس علاقہ سے گذر ہوا ۔ اس نے خزانے کا دروازہ کھلا دیکھا تو حیران رہ گیا اسے خیال ہوا کہ کل رات جب وہ خزانہ دیکھنے آیا تھا شاید اس وقت وہ دروازہ بند کرنا بھول گیا ہو اس نے جلدی سے دروازہ بند کرکے باہر سے مقفل کردیا۔
ادھر بادشاہ جب اپنے دل پسند خزانہ کے معائنہ سے فارغ ہوا تو واپس دروازہ پر آیا لیکن یہ کیا ؟۔ دروازہ تو باہر سے مقفل تھا اس نے زور زور سے دروازہ پیٹنا اور چیخنا شروع کیا لیکن افسوس اس کی آواز سننے والا وہاں کوئی نہ تھا ۔ وہ لوٹ کر پھر اپنے خزانے کی طرف گیا اور ان سے دل بہلانے کی کوشش کی لیکن بھوک اور پیاس کی شدت نے اسے تڑپانا شروع کیا وہ پھر بھاگ کر دروازہ کی طرف آیا لیکن وہ بدستور بند تھا۔ وہ زور سے چیخا چلایا ۔ لیکن وہاں اس کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا وہ نڈھال ہوکر دروازے کے پاس گرگیا۔
جب بھوک پیاس سے وہ بری طرح تڑپنے لگا تو رینگتا ہوا ہیروں کی تجوری تک گیا اس نے اسے کھول کر بڑے بڑے ہیرے دیکھے جن کی قیمت لاکھوں میں تھی اس نے بڑے خوشامدانہ انداز میں کہا اے لکھ پتی ہیرو! مجھے ایک وقت کا کھانا دیدو ۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ ہیرے زور زور سے قہقہے لگا رہے ہوں ۔ اس نے ان ہیروں کو دیوار پر دے مارا ۔ پھر وہ گھسٹتا ہوا موتیوں کے پاس گیا اور ان سے بھیک مانگنے لگا ۔ اے آبدار موتیو! مجھے ایک گلاس پانی دیدو ۔ لیکن موتیوں نے ایک بھر پور قہقہہ لگایا اور کہا اے دولت کے پجاری کاش تو نے دولت کی حقیقت سمجھ لی ہوتی ۔ تیری ساری عمر کی کمائی ہوئی دولت تجھے ایک وقت کا کھانااور پانی نہیں دے سکتی
۔ بادشاہ چکرا کر گرگیا ۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے سارے ہیرے اور موتی بکھیر کر دیوار کے پاس اپنا بستر بنایا اور اس پر لیٹ گیا وہ دنیا کو ایک پیغام دینا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس کاغذ اور قلم نہیں تھا ۔ اس نے پتھر سے اپنی انگلی کچلی اور بہتے ہوئے خون سے دیوار پر کچھ لکھ دیا ۔
حکومتی عہدیدار بادشاہ کو تلاش کرتے رہے لیکن بادشاہ نہ ملا
جب کئی دن کی تلاش بے سود کے بعد وزیر خزانہ کا معائنہ کرنے آیا تو دیکھا بادشاہ ہیرے جواہرات کے بستر پر مرا پڑا ہے۔ اور سامنے کی دیوار پر خون سے لکھا ہے ۔ ’’یہ ساری دولت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے‘‘
یہی حال بڑے بڑے محلات بنانے والوں کاہے کچھ لوگ اپنی عمر بھر کی کمائی صرف کرکے اپنے لئے راحت کدہ بناتے ہیں لیکن بہت مختصر سے قیام کے بعد مقبرہ میں چلے جاتے ہیں ۔ ریشم کے کیڑے کو بھی مکان بنانے کا شوق ہے ہوش سنبھالتے ہی وہ اپنی ساری صلاحتیں صرف کرکے اپنے لئے مکان بنانا شروع کردیتا ہے ۔ ساری عمر مکان بنانے میں لگا رہتا ہے اور جس دن وہ مکان بن کر تیار ہوتا ہے ۔ اس کے چند دن بعد ہی دم گھٹ کر مرجاتا ہے ۔ اس کا شبستاں اس کا قبرستان بن جاتا ہے ۔ لوگ اس کی حماقت کا مذاق اُڑاتے ہیں او راس ککون کو پانی میں ابال کر اس کا تارکھینچ کر ریشم کے کپڑے بناتے ہیں۔
Continue Reading...

Take the honor of the Prophet!

آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے !!
=====================
پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا.. بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا.. کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے.. یہی وجہ تھی کہ شاھی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا..
ایک دن "جنید پہلوان" بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ھمراہ بیٹھا ھوا تھا کہ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ھے جس کا بوسیدہ لباس ھے.. کمزوری کا یہ عالم ھے کہ زمین پر کھڑا ھونا مشکل ھو رھا ھے.. اس نے یہ پیغام بھیجا ھے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے.. بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو..
اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ھوا.. وزیر نے اجنبی سے پوچھا.. " تم کیا چاھتے ھو.. "
اجنبی نے جواب دیا.. " میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاھتا ھوں.. "
وزیر نے کہا.. " چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو.. کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ھے.. پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ھلاکت کا سبب بھی ھو سکتا ھے.. "
اجنبی نے کہا.. " جنید پہلوان کی شہرت ھی مجھے کھینچ کر لائی ھے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ھے.. آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے.. یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ھوتی ھے.. "
جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رھا تھا..
بادشاہ نے کہا.. " اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ھے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ھے.. لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے.. "
بادشاہ کا حکم ھوا اور کچھ ھی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا.. پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا.. ھر شخص کی یہ خواھش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے.. تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا.. ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا.. انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔
جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی.. اپنے وقت کا مانا ھوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رھا تھا.. اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ھجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ھوا تھا.. بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ھمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے.. جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ھمراہ آ گیا تھا.. سب لوگوں کی نگاھیں اس پراسرار شخص پر لگی ھوئی تھیں جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا..
مجمع کو یقین نہیں آ رھا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے.. جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا.. اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رھے تھے کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ھوا اکھاڑے میں پہنچ گیا.. ھر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا..
کشتی کا آغاز ھوا.. دونوں آمنے سامنے ھوئے.. ھاتھوں میں ھاتھ ڈالے گئے.. پنجہ آزمائی شروع ھوئی.. اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے ' اجنبی نے آھستہ سے جنید سے کہا.. " اے جنید ! ذرا اپنے کام میرے قریب لاؤ.. میں آپ سے کچھ کہنا چاھتا ھوں.. "
اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ھوا اور کہا.. " کیا کہنا چاھتے ھو.. "
اجنبی بولا.. " اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ھوں.. زمانے کا ستایا ھوا ھوں.. میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھوں.. سید گھرانے سے میرا تعلق ھے.. میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ھفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ھوا ھے.. چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بےجان ھو چکے ھیں.. خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی.. سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ھوئے ھیں.. بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ھوں.. میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ھے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے عقیدت ھے.. آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے.. میں وعدہ کرتا ھوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا.. تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ھوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ھوگی.. تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ھونے دی جائے گی.. "
اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے.. اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ھو گئیں.. سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت ' عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی.. فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ھو سکتا ھے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ھوئی خاک پر قربان کردوں.. " اگر سید گھرانے کی مرجھائی ھوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ھے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ھوں.. "
جنید فیصلہ دے چکا.. اس کے جسم کی توانائی اب سلب ھو چکی تھی.. اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاھری مظاھرہ شروع کر دیا..
کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا.. پینترے بدلے جا رھے تھے.. پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رھا.. جوش و خروش بڑھتا گیا.. جنید داؤ کے جوھر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا.. دونوں باھم گتھم گتھا ھو گئے.. یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں ' دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا..
جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رھا تھا..
پورے مجمع پر سکتہ طاری ھو چکا تھا.. حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا.. میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رھا تھا.. ھر طرف انعام و اکرام کی بارش ھونے لگی.. خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا..
اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ھو چکا تھا.. ھر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رھا تھا.. زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رھا تھا..
رات ھو چکی تھی.. لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے.. عشاء کی نماز سے فارغ ھوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا.. اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رھے.. " آج میں وعدہ کرتا ھوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا.. "
جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ھوگا.. کیا مجھے یہ شرف حاصل ھوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ھاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں گا..؟ یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا.. نیند میں پہنچتے ھی دنیا کے حجابات نگاھوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے.. ایک حسین خواب نگاھوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاھوں کے سامنے جلوہ گر ھوا جس سے ھر سمت روشنی بکھرنے لگی.. ایک نورانی ھستی جلوہ فرما ھوئی جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ھو گئیں.. دل کیف سرور میں ڈوب گیا..
جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ھیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ھوں.. فوراً قدموں سے لپٹ گئے.. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.. " اے جنید اٹھو ! قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو.. نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا.. سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ھوں.. آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ھے.. تمہیں اولیاء کی سروری کا اعزاز مبارک ھو.. "
ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ھے.. اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ھے کہ جب جنید نیند سے بیدار ھوئے تو ساری کائنات چمکتے ھوئے آئینے کی طرح ان کی نگاھوں میں آ گئی تھی.. ھر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ھو چکے تھے.. بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا..
بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ھو چکا تھا.. ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے..
(تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ کیجئے.. کتاب " زلف و زنجیر" صفحہ 72۔ 62)
Continue Reading...
© Copyright 2013. RddTeem. All Rights Reserved. -- Designed by: www.mp3custom.blogspot.com -- Powered by the Blogger